Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

نانو کی کال آئی تھی۔ وہ اس کو یاد کررہی تھیں، گھر بلا رہی تھیں کہ تم آوٴ گی تو مثنیٰ بھی تمہاری وجہ سے آجائے گی۔ ماموں، ممانی آئے نہیں تھے، تنہائی کے آسیب سے وہ خوف زدہ رہنے لگی تھیں۔ جانا تو وہ بھی چاہ رہی تھی مگر دادی سے اجازت لینا بڑا مسئلہ تھا گو کہ وہ اجازت دے دیتیں مگر پھر ان کا موڈ ہفتوں درست ہونے والا نہیں تھا۔ وہ اس کا وہاں جانا پسند نہیں کرتی تھیں۔
اسے لگتا نانو کی محبت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی تھی۔ اس نے بالکونی میں جاکر کال ریسیو کی تھی۔ اسی دوران اس نے غور نہیں کیا تھا۔ فیاض صاحب لان میں بیٹھے طغرل سے گفتگو کررہے تھے جو کاروباری نوعیت کی تھی۔ باتوں کے درمیان ان کی نگاہیں بالکونی میں کھڑی سیل فون پر بات کرتی پری پر لخطے بھر کو اٹھی تھیں، پل بھر کو وہ چپ سے ہوگئے تھے۔
(جاری ہے)
وہ جانتے تھے پری کس سے بات کررہی ہے، اس کو کال کون کرسکتا ہے، طغرل ٹیبل پر پھیلے فیکٹری کے نقشے کو دیکھنے میں محو تھا، وہ فیاض کے چہرے پر آکر گزرنے والے پل بھر کے تکلیف دہ رنگ کو دیکھ نہ سکا۔

پری وہیں بیٹھ گئی اس کے چہرے پر اداسی پھیلی ہوئی تھی۔

”کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ! جو اپنے پاپا، مما کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ آرزو کبھی پوری نہ ہوسکی کہ میں مما کا ہاتھ پکڑ کر نانو کے گھر جاوٴں۔
پپا مما کے ساتھ ساتھ ہوں اور میں ان کے …“ قدموں ں کی آہٹ ابھری تھی، کوئی ادھر ہی آرہا تھا۔ وہ جلدی سے آنسو صاف کرتی کھڑی ہوئی تھی۔ آنے والے فیاض صاحب تھے۔

”آپ کی نانو بلارہی ہیں آپ کو …؟“ وہ بلا تمہید گویا ہوئے تھے۔

”آ… آپ کو کیسے پتا چلا پپا!“ وہ ازحد حیران تھی۔

”آپ جانا چاہتی ہیں؟“ ان کا انداز سپاٹ تھا۔

”جی … نہیں … وہ …؟ “ وہ سچ و جھوٹ کے درمیان لڑکھڑاگئی۔

”اماں جان آصفہ کے ہاں جارہی ہیں، مجھے اور طغرل کو کینٹ جانا ہے، آپ تیار ہوجائیں ، ڈراپ کردیں گے۔“ وہ بے خبر نہیں تھے، جیسا وہ سمجھتی تھی۔

”رئیلی پپا! آپ مجھے نانو کے ہاں ڈراپ کر دیں گے؟“ وہ ایک دم خوشی سے جھوم اٹھی تھی کہ اسے یاد نہیں تھا، پپا نے کبھی اس سے اس طرح بات کی اور فیاض صاحب جو سرسری نگاہ سے اس کی جانب دیکھ رہے تھے، چونک گئے۔

”رئیلی فیاض! آپ مجھے ممی کے ہاں ڈراپ کریں گے؟“

ایسی ہی آواز تھی… لہکتی ہوئی ، چہکتی ہوئی…!

ماضی کے جھروکے سے ایک چہرہ جھانکنے لگا تھا، بے چین کرنے لگا تھا۔ وہ آواز … وہ چہرہ… جس سے وہ ہمیشہ کے لیے پیچھا چھڑانا چاہتے تھے۔ وہ ایک نئے پاکیزہ روپ میں ان کے سامنے تھی۔

”پپا! آپ ٹھیک تو ہیں نا!“ لمحے بھر میں باپ کے دھواں دھواں ہوتے چہرے نے اس کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا۔

”جلدی کرو!“ وہ اسے جلدی آنے کا کہہ کر چلے گئے، وہ کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ پپا کے ہمراہ پہلی بار وہ کہیں جارہی تھی، اس خوشی نے اسے کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع نہ دیا تھا۔ دادی نے اس کو بھی چلنے کی دعوت دی تھی اور اس کے بتانے پر وہ کسی اظہار کے بنا صباحت اور دونوں بچیوں کو لے کر چلی گئی تھیں۔ وہ تیار ہوکر آئی تو پپا اور طغرل کار کی طرف جارہے تھے، وہ بھی پرس سنبھالتی کار کی طرف بڑھ گئی۔
کوٹ سوٹ میں طغرل کی شاندار شخصیت نمایاں تھی اور اس وقت وہ فیاض صاحب کی وجہ سے سنجیدہ و مہذب لگ رہا تھا۔ فیاض اگلی نشست پر بیٹھ گئے۔ طغرل ڈرائیونگ کررہا تھا، وہ اس وقت اس قدر مہذب و شریف لگ رہا تھا کہ پری کو حیرت سے کئی بار اس کی جانب دیکھنا پڑا۔ سچ مچ وہ طغرل ہی ہے! ایک نگاہ بھی اس نے پری کی طرف نہ ڈالی تھی۔ وہ اس وقت کسی لوکیشن کی بات کررہے تھے۔
وہ محبت سے اپنے پپا کی پشت کو دیکھنے لگی۔ تھری پیس سوٹ میں ان کی پروقار شخصیت میں جاذبیت تھی۔ وہ اس کے لیے آئیڈیل تھے ۔ راستہ طویل تھا۔ وہ دونوں تاوٴ جان کے نئے بزنس کے سیٹ اپ کی بات کررہے تھے۔ طغرل کے لیے یہاں کا ماحول اور حالات ابھی ناآشنا تھے فیاض اس معاملے میں اس کی ہر ممکن مدد کررہے تھے، ان کی ڈسکس کے دوران معلوم ہوا نو ے فی صد کام پپا کررہے ہیں اور وہ جانتی تھی، وہ اتنے خود دار و ایمان دار ہیں کہ اتنی جدوجہد کے باوجود ایک روپیہ بھی لینا گوارانہ کریں گے حالانکہ ان دنوں وہ کاروباری پریشانیوں کا شدت سے شکار ہیں۔

”بس ! یہیں روک دیں۔“ طغرل نے ایک جگہ اچانک ہی فیاض کے کہنے پر کار روک دی تھی، سامنے کسی اسٹیٹ ایجنسی کا بورڈ عمارت پرر تھا۔

”آپ پری کو ڈراپ کرکے یہیں آجائیں، جعفری کو ساتھ لے کر وزٹ پرر چلیں گے۔ اوکے میں انتظار کررہا ہوں۔“ وہ اتر گئے پری سے کچھ کہے بنا … وہ دم بخو درہ گئی تھی۔

”تم ٹھیک تو ہو؟“ خاصی دیر وہ گم صم بیٹھی رہی تو وہ گردن موڑ کر گویا ہوا۔

”پپانے چیٹنگ کیوں کی …؟ انہوں نے کہا تھا نانو کے ہاں ڈراپ کریں گے۔“

”ایسی بات نہیں ہوئی، انہوں نے یہی کہا تھا میں آپ کو ڈراپ کرکے آوٴں گا، کیونکہ شوفردادی اور آنٹی وغیرہ کو لے کر گیا ہوا ہے۔“

”کیا ہوجاتا اگر پپا مجھے ڈراپ کرکے آتے نانو کے ہاں؟“ وہ نہ صرف بد دل ہوئی بلکہ طغرل کے سامنے اس نے سبکی محسوس کی تھی۔

”کوئی اعتراض ہے آپ کو… اگر میں ڈراپ کرنے جارہا ہوں۔
“ اس نے عقبی آئینے میں دیکھا۔ وہ بلیک جارجٹ کے پرنٹڈ دوپٹے کو بار بار درست کررہی تھی۔ طغرل بے ساختہ مسکرانے لگا۔

بڑی ضدی لڑکی تھی۔

بے حد انا پرست بھی!

پیشانی کی چوٹ کو ابھی تک اس سے چھپا کر رکھا ہوا تھا۔

###

ماضی کے گلستاں میں یادوں کے پھول تازیست مہکتے رہتے ہیں اور ان پھولوں سے لپٹے ہماری لغزشوں کے کانٹے بھی آخری دم تک لہولہان کرتے رہتے ہیں ان کی روح لہولہان ہوچکی تھی، چین نہیں تھا۔
وہ آج بھی ماضی کی ان خوش گوار یادوں کے سہارے زندہ تھیں وگرنہ زندگی کب زندگی رہی تھی۔ سزا بن گئی تھی، گناہ بن گئی تھی، آہ بن گئی تھی۔ ماہ رخ رو رہی تھیں… بے تحاشا رورہی تھیں، شہاب کو وہ کہہ چکی تھیں خواہ کچھ بھی ہوجائے وہ ان کو دسٹرب نہ کرے۔ وہ آج ایک سفر پر جارہی تھیں۔

حال سے ماضی کے سفر پر …

کانٹوں سے پھولوں کے سفر پر

پستی سے بلندی کے سفر پر

اندھیرے سے روشنی کے سفر پر

”لاڈو کہاں ہے نیک بخت! صبح بھی اس کی صورت دیکھے بنا چلا گیا تھا اور اب بھی مجھے آئے اتنی دیر ہوگئی ہے، وہ نظر نہیں آئی ہے۔
“ فیاض محمد نے کھانے کے بعد ہاتھ دھوتے ہوئے فاطمہ سے کہا۔

”ہمارے پاس ہے ہی کیا! اگر پیار بھی اپنی بیٹی کو نہ دے سکے تو پھر ہم سے بڑا بدبخت کوئی دوسرا اس دنیا میں نہیں ہے۔“

”یہ کیا بات کی… ؟ ارے رب کا احسان ہے پیٹ بھر کر روٹی کھاتے ہین، محنت مزدوری کرتے ہیں کسی سے بھیک نہیں مانگتے ہیں۔ “ فاطمہ چارپائی پر بیٹھتے ہوئے گویا ہوئی فکر سے۔

”جھلی ہے تو! بات نہیں سمجھتی۔ پٹرپٹر زبان چلتی ہے تیری… میری خواہش ہے ماہ رخ شہزادیوں کی طرح رہے، مولا نے اسے حسین تو پریوں کی طرح بنایا ہے … مگر پیدا مجھ جیسے سبزی فروش کے ہاں کردیا۔“ فیض محمد کے لہجے میں حسرتیں پنہاں تھیں۔

”سبزی فروش ہو تو کیا ہوا؟ اس کو رکھا کسی نواب زادی کی طرح ہے۔ اس محلے کی کوئی بھی لڑکی اس کی طرح ٹھاٹ سے نہیں رہتی۔

”اس محلے کی کوئی بھی لڑکی اس کی طرح خوب صورت بھی نہیں ہے۔“ فیض محمد کے لہجے میں بیٹی کے لیے محبت ہی محبت تھی۔

”تمہاری ان ہی باتوں نے اس کا دماغ خراب کردیا ہے، وہ خود کو سچ مچ کی ملکہ سمجھنے لگی ہے۔ مجال ہے جو کسی سے سیدھے منہ بات کرے۔“

”لو آگئی میری روشنی! “ فیاض محمد نے ماہ رخ کو آتے دیکھ کر خوشی سے کہا۔

”ابا! ایک بات سچ مچ بتائیں گے؟“ وہ باپ کے قریب بیٹھ گئی تھی۔

”ہاں… ہاں… کیوں نہیں! تو پوچھ تو سہی؟“

”یہ امی میری سگی ماں ہیں؟“ وہ فاطمہ کو دیکھتے ہوئے بولی۔

”ہاہاہا… تجھے کیا لگتا ہے وہ بتا؟“

”سوتیلی ماں بھی اتنی ظالم نہیں ہوگی جتنی یہ ہیں۔“ اس نے فاطمہ کو شکایتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

”ارے بھئی! کون ظلم کررہا ہے ہماری لاڈو رانی کے ساتھ؟“ ایاز نے کمرے سے نکلتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا۔

”آپا کے علاوہ کون کرسکتا ہے بھلا…؟“ ان کے پیچھے ہی ثریا بھی وہاں آتے ہوئے بولیں پھر بڑے پیار سے منہ بنائے بیٹھی ماہ رخ کو اپنے قریب بٹھالیا تھا۔ بڑے سارے آنگن میں تین چارپائیاں بچھی تھیں۔

”ہاں… سب مجھے ہی غلط سمجھتے ہیں تو سمجھتے رہیں، سب نے اسے سر چڑھا لیا ہے۔ لڑکی ذات ہے، بہت اونچ نیچ آتی ہے زندگی میں… عورت کو بہت سخت جان ہونا چاہیے۔
“ تنہا مقابلہ کرنا پڑتا ہے مصائب سے اور تم سب اس کو آزمائشوں کا عادی بنارہے ہو۔ ان کا لہجہ عاجز اورشکایتی ہوگیا تھا۔

###

وہ طغرل کو راستہ بتارہی تھی۔ گیٹ پر چوکیدار نے اطلاع دی ، نانو کچھ دیر قبل ہی ڈرائیور کے ہمراہ کہیں گئی تھیں۔ جھنجلاہٹ بھری کوفت اس پر سوار ہوگئی تھی، غلطی اس کی ہی تھی نانو کو اس نے کہہ دیا تھا کہ وہ نہیں آئے گی اورچلی آئی تھی… نانو تنہائی سے گھبرا کر کسی دوست کی طرف نکل گئی تھیں۔
اب کھڑی سوچ رہی تھی گھر واپس جائے یا رک کر انتظار کرے… ؟ تب ہی طغرل کار سے نکل کر اس کے پاس آکر گویا ہوا تھا۔

”کیاہوا…؟“

”نانو گھر پر نہیں ہیں۔“

”تمہیں آنے سے پہلے ان کو مطلع کرنا چاہیے تھا۔“

”نانو نے کال کی تھی تو میں نے آنے سے انکار کردیا تھا۔“

”پھر کیوںآ ئیں؟“ وہ حیرانی سے گویا ہوا تھا۔ وہ چپ چاپ آکر کار میں بیٹھ گئی تھی۔
کیا بتاتی اس کو کہ باپ کے ساتھ آنے کی خوشی نے اس کو یہ سوچنے کی مہلت ہی نہ دی کہ وہ نانو کو کال کرتی آنے کی اطلاع دیتی اور خوشی بھی ادھوری رہی تھی۔ باپ کا ساتھ تشنہ رہا تھا تو نانو بھی گھر نہ ملی تھیں۔ دونوں طرف سے وہ نامراد رہی تھی جس کے باعث اس کے چہرے پر اضمحلال پھیل گیا تھا۔ طغرل نے شدت سے اس کی اداسی کو نوٹ کیا تھا۔

”اب کہاں جانا ہے؟“ اس نے بیٹھتے ہوئے دریافت کیا۔

”پتا نہیں!“ اس کا موڈ بری طرح آف تھا۔

”وہاٹ! پتا نہیں…؟ یہ جگہ کہاں پائی جاتی ہے؟“وہ جو خاصی دیر سے خود پر سنجیدگی کا خول چڑھائے ہوئے تھا، اس کے لٹھ مار انداز پر اس کی رگ شرارت پھڑک اٹھی تھی۔

”یہ ناکام اداکاری میرے سامنے مت کیا کریں طغرل بھائی! آپ اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔“ وہ بگڑے تیوروں سے گویا ہوئی تھی۔

”چچا جان تم کو یہاں تک نہیں لائے… تمہاری نانو گھر پر نہیں ملیں تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے پھر تم مجھ پر کیوں غصہ کررہی ہو؟“ وہ کار اسٹارٹ کرتے ہوئے اس سے مخاطب ہوا۔

”میں آپ پر غصہ نہیں کررہی، غصہ مجھے خود پر آرہا ہے۔“ اس کے لہجے میں عجیب سی الجھن تھی، اک بے بسی کا احساس تھا۔ جس کو طغرل نے محسوس کیا تھا اور چونک سا گیا تھا۔ ہر وقت لڑنے جھگڑنے والی، تیز و طرارسی پری کا یہ آزردہ و ملول روپ بہت انوکھا تھا۔ سنجیدہ، دلگیر، تنہا تنہا، اداس ومایوس۔

”دادو، آنٹی وغیرہ آصفہ آنٹی کے ہاں گئی ہیں، وہاں ڈراپ کردیتا ہوں۔
“ اس کو خاموش دیکھ کر اس نے کہا تھا۔

”نہیں، آپ مجھے گھر چھوڑ دیں۔“

”گھر پر کوئی نہیں ہے، عادلہ، عائزہ بھی ان کے ساتھ ہیں۔“

”جی، مجھے معلوم ہے۔ آپ مجھے گھر چھوڑ دیں۔“

”کیا کرو گی گھر جاکر … وہاں کوئی بھی نہیں ہے، تنہا رہو گی؟“کار کی رفتاراس نے کم کردی تھی۔ یہ علاقہ سبزے میں گھراتھا، ٹریفک زیادہ نہ تھی۔ اکا دُکا گاڑیاں وہاں سے گزر جاتی تھیں۔
طغرل کو ڈرائیونگ میں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہورہا تھا، وہ گاہے بگاہے چہرہ موڑ کر اس سے بات بھی کرتا جارہا تھا، جس کے موڈ میں عجیب اداسی و خفگی تھی۔

”آنٹی کے گھر جانے سے بہتر ہے، میں گھر پر ہی رہوں۔“

”کیوں؟ آنٹی سے کوئی ناراضی ہے جو وہاں جانا نہیں چاہ رہی ہو؟“

”آپ مجھ سے بحث کیوں کررہے ہیں؟“ اس کے لہجے میں جھنجلاہٹ در آئی۔

”تمہارے ساتھ پر ابلم کیا ہے… تم کیوں ہر وقت غصے میں رہتی ہو؟ تمہاری عمر کی لڑکیوں کو میں بہت خوش دیکھتا ہوں۔“

”وہ میری عمر کی تو ضرور ہوں گی، مگر میرے جیسے نصیب نہیں ہوں گے۔“ وہ اس وقت اتنی دلگرفتہ تھی کہ اس کے سامنے اپنا دکھ بیان کرگئی، جس کی پرچھائیں سے بھی اس کو پرخاش تھی۔

”کیا دکھ ہے؟ کوئی پرابلم ہے تو مجھے بتاوٴ میں مدد کروں گا۔
“ اس لمحے اس کو اس پر بہت ترس آرہا تھا اس کا ٹوٹا، بکھرا لہجہ اس جیسے حساس بندے کو پریشان کرگیا تھا۔ پری بھی گویا حواسوں میں پلٹ آئی تھی، اس نے چونک کر دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

روشن روشن دمکتی ہوئی آنکھیں!

کتنی گہری اور بولتی ہوئی آنکھیں!

اس نے گھبرا کر چہرہ جھکالیا تھا۔

رگ وپے میں سنسنی دوڑ گئی تھی۔

”کچھ نہیں!“ اس نے بے پروا انداز میں طغرل کو جواب دیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔

   2
0 Comments